ایک شام اجمل سراج کے ساتھ
مورخہ: ۱۱ اگست ۲۰۲۴ء
Videos - ویڈیوز
Videos
رپورٹ
(رپورٹ و تصاویر محسن نقی ) مورخہ11/8/2024ء کو ادارۂ یادگار غالب ، ناظم آباد کراچی نے معروف سینیئر شاعر ، صحافی ، جناب اجمل سراج کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا ، جس کی صدارت معروف نقاد ، شاعر ، افسانہ نگار ، جناب مبین مرزا نے کی، مہمان خصوصی معروف ماہرِ لسانیات ، مترجم ، لغت نگار ، محقق ، ادیب ، جناب رؤف پاریکھ تھے اورصدر ادارہ یادگار غالب ، جناب سید صبیح الدین رحمانی تھے ، تقریب کی نظامت کے فرائض محترمہ ڈاکٹر عائشہ ناز نے بخوبی انجام دیے ۔ تقریب کے آغاز میں جناب حسین موسی نے تلاوت اور محترمہ ڈاکٹر شمع افروز نے نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ، تقریب کے آغاز میں ادارہ ٔیادگار غالب کی معتمد ، محترمہ پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تمام مہمانوں اور حاضرین کو خوش آمدید کہا، مزید خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ادارہ ٔیادگار غالب کی پوری ٹیم کو بہت خوشی ہے کہ آج ہم نے پاکستان کے معروف سینیئر شاعر ، صحافی جناب اجمل سراج کے اعزاز میں تقریب منعقد کی ، ان کا شمار پاکستان کے نمایاں شعراء میں ہوتا ہے دنیا بھر میں ان کے شعری کلام کو بہت پسند کیا جاتا ہے ، ہمیں خوشی ہے کہ یہ آج ہمارے درمیان موجود ہیں ہم اور حاضرین آج ان کی گفتگو اور کلام سے لطف اندوز ہوں گے۔ اس کے بعد انھوں نے ادارۂ یادگار غالب کے اغراض و مقاصد پیش کیے اور فرمایا کہ ادارۂ یادگار غالب تحقیق کے حوالے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے ، مگر وسائل کی کمی ہونے کی وجہ سے اس کی سرگرمیاں محدود ہو گئیں ہیں۔اس کے باوجود ادارۂ یادگار غالب پوری ٹیم اس کی بہتری کے لیے دن رات کوشاں ہے ۔ سال رواں میں غالب لائبریری میں تزئین و آرائش کا کام کافی ہو چکا ہے ، اور جلد یہاں ادبی سرگرمیوں کو دوبارہ فعال کیا جائے گا ، اس وقت غالب لائبریری ناظم آباد کراچی ، میں کتابیں انتہائی منظم صورت میں موجود ہیں جس کی وجہ سے محققین ان تک باآسانی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کے بعد نظامت کار محترمہ عائشہ ناز نے جناب اجمل سراج (شاعر ، صحافی ), کا مختصر تعارف پیش کیا اور فرمایا کہ چودہ اگست پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے ، اب یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ جناب اجمل سراج کی تاریخ پیدائش کا دن بھی چودہ اگست 1968، ہے ۔
جناب اجمل سراج نے صرف تیرہ برس کی عمر سے شعر کہنے کا آغاز کیا ، ان کی زندگی کا پہلا شعر یہ تھا :
جناب اجمل سراج کا اولین شعری مجموعہ ” اور میں سوچتا رہ گیا “ 2005 ءمیں شائع ہوا اور اسے ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل ہوئی ، ادبی حلقوں میں اسے بہت پسند کیا گیا۔
ان کے بعد معروف ماہرِ لسانیات ، مترجم ، لغت نگار ، ادیب جناب رؤف پاریکھ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جناب اجمل سراج کا مجموعہ ” اور میں سوچتا رہ گیا “ پڑھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ کچھ ماہر فلکیات بھی ہیں اور علم نجوم سے بھی اچھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو جناب اجمل سراج تخیل میں وہاں پہنچ گئے ہوں کیوں کہ شاعری کا سارا کاروبار تخیل پر ہی منحصر ہے اور اگر تخیل میں بھی نہیں پہنچے تو پھر خواب میں ضرور پہنچے ہوں گے ان کا شعر ہے :
مزید فرمایا کہ اُردو غزلیہ شاعری کا اہم ترین موضوع عشق ہے ، شاعر کی داستان عشق کے نازک پہلوؤں کا اظہار غزل کی روایات میں سے ہے ، جناب اجمل سراج نے نظرو نظارہ کے اس کھیل کو اس طرح برتا ہے کہ محبوب کا ایک واضح چہرہ ان کے اشعار میں اجاگر ہوتا ہے ، اجمل سراج کے لیے کائنات ایک وجود دیگر کا حصہ ہے جو ازل سے رقص میں ہے اور اجمل سراج اک چشمِ لازوال بن کر اسے دیکھتے ہیں ، میں ان کی صحت و تندرستی کے لیے دعا گو ہوں اللہ انھیں ہمیشہ خوش و خرم اور صحت مند رکھے آمین ۔
ان کے بعد ادارۂ یادگار غالب کے صدر اور معروف شخصیت جناب سید صبیح الدین رحمانی نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جناب اجمل سراج کی شاعری اپنے تصورات اور تفکر سے زیادہ پر کشش اپنے اس طلسم کے باعث بنتی ہے جو معنی تکثیر سے پیدا ہوتا ہے ، انھوں نے زبان ، بیان ، لہجے ، تجربے ، احساس اور ادراک کے لحاظ سے اُردو کی شعری روایت کو ایک واضح جمہوری مزاج عطا کرنے کی کوشش کی ہے ، ان کی شاعری میں ایک رنگ کے مضمون کو سو رنگ میں باندھنے کا ہنر خوب ہے ۔
ان کے بعد صدر محفل معروف نقاد ، شاعر ، افسانہ نگار ، جناب مبین مرزا نے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے ادارہ یادگار غالب کے صدر جناب سید صبیح الدین رحمانی کا جناب اجمل سراج کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کرنے پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کیا ، اور فرمایا کہ مرزا غالب کی طرح جناب اجمل سراج کے یہاں بھی کہیں کہیں ظرافت کا رنگ نظر آتا ہے ، غلام محمد قاصر ، مرزا غالب ، اور اجمل سراج ، ان سب نے عشق کو ایک کام بتایا ہے اور اپنے اپنے انداز سے اسے پیش کیا ہے ، غلام محمد قاصر اپنے مستقبل کے لیئے بہت زیادہ فکرمند ہیں کہ اگر خدانخواسطہ عشق میں ناکامی ہو گئ تو کیا کریں گے وہ کہتے ہیں :
اور چچا غالب نے اپنے نکمے ہونے کے لیئے عشق کو مورد الزام ٹھہرایا ہے وہ فرماتے ہیں :
جبکہ جناب اجمل سراج چچا غالب کے خیالات سے قطعاً اتفاق نہیں کرتے ان کی نظر میں عشق ہی وہ شے ہے جس نے ان کو مصروف رکھا ہوا ہے ورنہ ان کے لیئے ” صبح کرنا شام کا ” جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ، اجمل سراج کہتے ہیں :
تمام مقررین نے اجمل سراج کے ساتھ گزرے لمحات کو بھرپور انداز میں بھی یاد کیا اور کئی دلچسپ واقعات بھی سنائے جنھیں حاضرین نے بہت پسند کیا ۔
مقررین کے اظہارِ خیال کے بعد بھرپور تالیوں کی گونج میں جناب اجمل سراج نے خطاب شروع کیا اور سب سے پہلے ادارہ ٔیادگار غالب کے صدر ، جناب سید صبیح الدین رحمانی اور ان کی پوری ٹیم کا ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کرنے پر بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر تمام مہمانوں اور حاضرین کا بھی تقریب میں بھرپور شرکت کرنے پر بہت بہت شکریہ ادا کیا ، مزید فرمایا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی ، میرے والد اور والدہ کہنہ مشق شاعر تھے ، میری ابتدائی تعلیم و تربیت میں میرے والدین اور گھر کے ماحول کے علاوہ والد صاحب کے بعض دوستوں نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ، پھر ہوش سنبھالنے کے بعد جن شعراء کو دیکھا ، سنا ، اور ان سے فیض حاصل کیا ، اس وقت شاعری میں زبان و بیان کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ، شاعری کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی خدمات انجام دیں ، پہلا شعری مجموعہ ” اور میں سوچتا رہ گیا “ 2005ءمیں شائع ہوا جسے بہت پسند کیا گیا میں اس کے لیے اپنے چاہنے والوں کا بہت بہت شکر گزار ہوں ، جنہوں نے مجھے ہمیشہ عزت دی،اور میری بھرپور پزیرائی کی،اس کے بعد انھوں نے اپنا شعری کلام سنا کر گویا پوری محفل کے دل جیت لیے ، ان کے شعری کلام کے ہر شعر پر ہال میں واہ واہ ، زبردست ، کیا کہنے ، مکرر مکرر ، کی صدائیں گونجتی رہیں ۔ان کے چاہنے والوں نے ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں ، کتب کے تحفے پیش کیے اور ان سے مل کر ان کی صحت کے لیے دعائیں دیتے رہے ۔
تقریب کے اختتام پر نظامت کار محترمہ ڈاکٹر عائشہ ناز نے تمام مہمانوں اور حاضرین کا تقریب میں بھرپور شرکت کرنے پر بہت بہت شکریہ ادا کیا اور سب کو پر تکلف ریفریشمنٹ کی دعوت دی ، تقریب میں جن علمی و ادبی و ثقافتی شخصیات نے شرکت کی ان میں جناب سلمان صدیقی، طارق رئیس فروغ ، سلیم فوز ، عبد الرحمٰن مومن ، کامران نفیس ،محمد عارف سومرو ، طارق رحمٰن فضلی ، انوار حسین انوار ، اور محسن نقی قابل ذکر ہیں۔