مرزاغالب کی ایک سو باونویں برسی
مورخہ: ۱۵ فروری ۲۰۲۲ء

Report
رپورٹ

15 فروری 2022 ء کو مرزا اسدالله خان غالب کی ایک سو باونویں برسی کے موقعے پرادارہٴ یادگار غالب ناظم آباد کراچی میں ایک شاندار مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ۔

صدارت پروفیسر سحر انصاری صاحب نے کی، مہمان خصوصی کرنل وقاص صاحب ، ونگ کمانڈر سچل رینجرز کراچی تھے اور نظامت ڈاکٹر عائشہ ناز نے کی۔

اس مشاعرے میں جہاں کراچی کے ممتاز شعرائے کرام نے شرکت کی وہیں کچھ نوآموز شعرا کو بھی موقع دیا گیا ۔ اس مشاعرے میں مندرجہ ذیل شعرانے اپنا کلام پیش کیا :

خواجہ رضی حیدر ، ڈاکٹر تنظیم الفردوس ، معراج جامی ، راشد نور، رخسانہ صبا، سلمان صدیقی ، عنبریں حسیب عنبر ، حمیرا راحت ، احمد سلمان ، احمد جہانگیر، صدف تبسم ، نزہت انیس، سیدہ عروج زیدی ، جوہر عباس ، دانیال اسماعیل اور حبیب الرحمن دائم مشاعرے کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے کیا گیا ۔ حسین موسی نے سورۃ البقرہ کی آخری آیت مع ترجمہ تلاوت کی ۔ اس کے بعد محمد اویس نے نعت رسول ﷺ پیش کی ۔

مشاعرے کے چیدہ چیدہ اشعار درج ذیل ہیں:

مری عمر کی جو بڑی رقم تھی وہ خرچ ہوتی چلی گئی
جو یقیں نہ آئے تو دیکھ لو کہ یہ آئینے کی رسید ہے
(عائشہ ناز)

دائم تجھے وصال میں جینا تو ہے پسند
پہلے مگر فراق میں مر جانا چاہیے
(حبیب الرحمان دائم)

عشق کا کھیل تو میں جیت گیا ہوں لیکن
کھو دیے لوگ بہت جان سے پیارے میں نے
(دانیال اسماعیل)

غزلوں میں جس طرح سے تمھارے حضور ہوں
دنیا کو اس طرح سے میسر نہیں ہوں میں
(حیدر عباس جوہر)

خواہش نئی کتاب کو پڑھنے کی کر گیا
میرا ورق ورق وہ ستم گر نکال کر
(نزہت انیس)

وقت کی ایسی تنگی ہے اب
ڈھیروں کام پڑے رہتے ہیں
(صدف تبسم)

زرد سکوں کا صندوق کھلتا رہا باٹ چڑھتے رہے مال تلتا رہا
چار جانب سے بولی بڑھائی گئی شعر بیچے گئے لفظ آنکے گئے
(احمد جہانگیر)

اس کی فطرت تھی وہ بھی کیا کرتا
دھیان میرا بھی آستیں پر نہ تھا
(احمد سلمان)

بس ذرا سا مقدر نے رستہ دیا
اور سمجھنے لگے خود کو ہم محترم
(حمیرا رحت )

لفظ کی حرمت مقدم ہے دل و جاں سے مجھے
سچ تعارف ہے مرے ہر شعر ہر تحریر کا
(عنبریں حسیب عنبر)

ان کے بعد صاحبہ نے مشاعرے کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنا کلام سنایا:

درد دے کہ درماں دے یہ خوشی تو اس کی ہے
ہم نے بس گزاری ہے زندگی تو اس کی ہے
(تنظیم الفردوس)

کسی جانب سے اک سنگ ملامت بھی نہیں آتا
ابھی شیشہ گران اہل فن کی آزمائش ہے
(رخسانہ صبا)

معززین کی محفل میں تھی نمائش ذات
لباس پہنے ہوئے بے لباس تھے سارے
(سلمان صدیقی)

حیرت آئینہ تھے خال و خط
وقت تھم سا گیا سنورنے تک
(راشد نور)

مشاعرے کے آخری شاعر خواجہ رضی حیدر صاحب تھے۔ انھوں نے غالب کی زمین میں ایک غزل سامعین کی نذر کی .

میں بھی تو اس ہجوم میں اسباب دید ہوں
میرے لیے بھی زحمت مژگاں اٹھائیے

ان کے بعد صدرمشاعرہ پروفیسر سحر انصاری صاحب نے اپنا کلام پیش کیا۔

یہ زندگی ہے نقل مکانی کا تجربہ
عجلت میں کون کون سا ساماں اٹھائیے

بعد ازاں مہمان خصوصی کرنل وقاص صاحب نے سب کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ غالب لائبریری کی توسیع اور تعمیرات کے حوالے سے امید دلائی اور مشاعرے کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا ۔

آخر میں صدر ادارہ یادگار غالب ، محترم صبیح رحمانی صاحب نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ نمائندہ شعرا اورشاعرات کا یہاں آنا حوصلہ افزا ہے ۔

اس کے ساتھ ہی مشاعرہ شام آٹھ بجے کامیابی سے تواضع کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔