Author: Mirza Zafar Ul Hassan
Pages: 12
200 ₨ Original price was: 200 ₨.100 ₨Current price is: 100 ₨.
In Stock
میں نے اپنے پیش لفظ کی کتابت ہوجانے کے بعد محبّی مشفق خواجہ سے دیباچہ لکھنے کی درخواست کی اس لیے موصوف کا شکریہ یہاں ادا کررہا ہوں۔طریفین کے تعلقات کے پیش نظر شکریے کی ضرورت نہ تھی مگر دیباچہ پڑھ کر کچھ ہنسی آئی کہ کچھ رونا۔کیوں اور کس پر یہ آپ کو دیباچے سے معلوم ہوگا۔ شاید آپ کو بھی ہنسی اورکچھ رونا آئے۔ کیوں اور کس پر یہ مجھے معلوم ہے(م ظ ح)
ابھی توخیر لوگ یہ کہتے ہیں کہ فیض صاحب فریدہ خانم والی غزل سنائیےلیکن ایک دن ایسا بھی آئے گا جب لوگ کہیں گے کون فیض صاحب؟اچھا وہی مرزا ظفر الحسن والے۔ یہ بات لکھ کر میں خدا نخواستہ فیض صاحب کی کسی خامی کی طرح اشارہ نہیں کررہا ہوں بلکہ مرزا ظفر صاحب کی اس خوبی کا ذکر مقصود ہے کہ جب وہ کسی کو چاہتے ہیں توپھر ان میں اور ان کے محبوب میں من و وتو کافرق ختم ہوجاتاہے۔ وہ اپنے محبوب پر اس حدتک چھا جاتے ہیں کہ کوئی معلوم نہیں کرسکتاکہ چاہنے والا کہاں ختم ہوتا ہے اورمحبوب کا حدود اربعہ کہاں سے شروع ہوتا ہے ۔ مرزا صاحب نے فیض کو اتنا اور اس انداز سے چاہا ہے کہ ان کا نام زبان پر آتے ہی فیض کا نام بھی ذہن میں آجاتاہے۔ اور اگر فیض کا کہیں تذکرہ ہورہاہو تو کسی نہ کسی طرح مرزاصاحب کا ذکر بھی ضرور چھڑ جاتاہے ۔یہ دوسری بات ہے کہ یہ ذکرہمیشہ سخن گسترانہ انداز ہی میں ہوتا ہے۔فیض کسی سے اتنا قریب کیوں ہے اور مخالفوں کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ کوئی فیض کے اتنا قریب کیوں ہے۔ گو یا فیض کی طرح مرزا صاحب بھی اچھی خاصی متنازع شخصیت بن گئے ہیں۔
مرزا ظفر الحسن نے جن سے محبت کی ہے ان میں فیض کے علاوہ مخدوم، غالب لائبریری اور حیدر آباد دکن بھی شامل ہیں ۔ یہ مرزا صاحب کی چار کمزوریاں یا ان کی شخصیت کے عناصر اربعہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرزا صاحب کی شخصیت سے ان چاروں کی محبت منہا کر دی جائے تو باقی کچھ نہیں رہے گا۔
مرزا صاحب کی اصل شخصیت کورے کا غذ جیسی ہے۔ صاف بے داغ، ملائم ۔ اس کاغذ پر فیض ، مخدوم، غالب لائبریری اور حیدر آباد دکن کے نقوش ثبت ہیں ۔
حیدر آباد دکن کی محبت تو مرزا صاحب کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے سقوط حیدر آباد کے بعد بے شمار حیدر آبادی پاکستان آئے ۔ یہ سب الٹ الٹا کر خالی ہاتھ آئے لیکن مرزا صاحب واحد حیدر آبادی ہیں جو خالی ہاتھ نہیں آئے ۔ یہ پورے حیدر آباد ہی کو اپنے ساتھ لے آئے ۔ وہ اب بھی اسی حیدر آباد میں رہتے ہیں اور اسی کی معطر فضا دس میں سانس لیتے ہیں۔ مرزا صاحب نے حیدر آباد سے متعلق اپنی یادوں کی پہلی کتاب “ذکر یار چلے” کے نام سے لکھی، دوسری کتاب پھر نظر میں پھول مہکے ” ہے اور اب تیسری کتاب دکن اداس ہے یارو منظر عام پر آرہی ہے۔ ان کتابوں کے ذریعہ جہاں مرزا صاحب نے اپنی یادوں کو تازہ کیا ہے وہیں ایک ایسے عہد کو بھی زندہ کر دکھایا ہے جس کے دامن میں ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیب کا آخری قافلہ اپنی آخری منزل کی طرف رواں دواں نظر آتا ہے ۔ ان کتابوں میں وہ حیدر آبادہے جو کبھی تھا لیکن اب کبھی نظر نہیں آئے گا۔ بقول مشفق خواجہ جنھوں نے حیدر آباد کو کبھی نہیں دیکھا لیکن مرزا صاحب کی کتابوں کے مطالعے کے بعد میں یہ کہ سکتا ہے کہ حیدر آباد اس لیے دیار غیر نہیں ہے۔ اس خطہ رنگ و بو کو اتنے قریب سے دیکھتا ہے کہ اس کی سماجی اور تہذیبی زندگی کا کوئی پہلو اس کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔
Yaadgar-e-Ghalib
Nazr-e-Ghalib
Mehrab-e-Tehqeeq
Raft-o-Boud
Don’t miss our future updates! Get Subscribed Today!
Yaadgar-e-Ghalib
Nazr-e-Ghalib
Mehrab-e-Tehqeeq
Raft-o-Boud
Don’t miss our future updates! Get Subscribed Today!
©2024. Idara-e-Yadgaar-e-Ghalib. All Rights Reserved.
Designed & developed by
Reviews
There are no reviews yet.